Followers

Monday, May 19, 2025

والد کا اپنے بچوں کو درود ابراہیمی سکھانا اور اس کے فضائل بیان کرنا

 درودابراہیمی 

ایک شام، گھر کی روشنیوں کے درمیان والد اپنےدو بچوں، احمد اور فاطمہ کے ساتھ قالین پر بیٹھے تھے۔ نمازِ مغرب کے بعد انہوں نے بچوں کو پاس بٹھایا اور مسکرا کر کہا: "آج تمہیں ایک خاص دعا سکھاؤں گا جو ہماری نمازوں کا حصہ بھی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی محبت کا ذریعہ بھی—**درود ابراہیمی**۔" بچوں کی آنکھوں میں تجسس چمک اٹھا۔  


والد نے نرمی سے سمجھایا: "یہ درود ہم نماز میں التحیات پڑھتے وقت بھیجتے ہیں۔ اس کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں سے ہے، جو ہمارے نبی ﷺ کے لیے خاص ہیں۔" انہوں نے درود کا عربی متن بتایا:  


**"اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ"**  


بچوں نے دہرایا، پھر والد نے اردو ترجمہ سمجھا: "اے اللہ! محمد ﷺ اور ان کے اہلِ بیت پر رحمتیں نازل فرما، جیسا تو نے ابراہیم اور ان کے اہلِ بیت پر نازل کیں۔ بے شک تو قابلِ تعریف اور بزرگی والا ہے۔"  


فاطمہ نے پوچھا: "ابا، یہ درود پڑھنے سے کیا فائدہ ہے؟" والد نے گود سے قرآن اٹھاتے ہوئے جواب دیا: "پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: *'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے'* (صحیح مسلم)۔ اس کے علاوہ، درود ہمارے گناہ مٹاتا ہے، درجات بلند کرتا ہے، اور قیامت کے دن نبی ﷺ کی شفاعت کا ذریعہ بنے گا۔"  


احمد نے سر ہلاتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو نماز میں یہ پہلے ہی پڑھتے ہیں!" والد مسکرائے: "بالکل! مگر ہم دن بھر بھی درود بھیج سکتے ہیں۔ جب بھی ہم انہیں یاد کرتے ہیں، یہ ہمارے دل کو صاف کرتا ہے اور ہمارے اعمال کو روشن کرتا ہے۔"  


انہوں نے مزید بتایا: "درود ابراہیمی اللہ کو سب سے پیاری دعا ہے۔ یہ ہمیں نبی ﷺ سے قریب کرتا ہے اور ان کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ بن جاتی ہے۔" بچوں نے عہد کیا کہ وہ روزانہ درود پڑھیں گے۔  


آخر میں، سب نے مل کر درود پڑھا۔ والد کی آواز میں سکون تھا، اور بچوں کے چہرے روحانی مسرت سے دمک اٹھے۔ یہ سبق نہ صرف ایک دعا سیکھنے تک محدود تھا، بلکہ نبی ﷺ سے قلبی تعلق کی شروعات تھی۔


اسلام کے رو سے جھوٹ کے نقصانات

 اسلام کی رو سے جھوٹ کے نقصانات

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انس


ان کو سچائی، دیانت داری، اور راست بازی کا درس دیتا ہے۔ دین اسلام میں جھوٹ کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید، احادیث نبویہ اور فقہی اصولوں میں جھوٹ کے دنیوی و اخروی نقصانات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جھوٹ نہ صرف فرد کی شخصیت کو داغدار کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو فساد، بداعتمادی اور زوال کی طرف لے جاتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں جھوٹ کی مذمت

قرآن مجید میں جھوٹ کو مختلف انداز میں برا کہا گیا ہے۔ جھوٹ بولنے والوں کو "ظالم" اور "فاسق" کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"إن الله لا يهدي من هو مسرف كذاب"
(سورۃ غافر: 28)
ترجمہ: "بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور بڑا جھوٹا ہو۔"

یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ جھوٹ بولنا انسان کو اللہ کی ہدایت سے محروم کر دیتا ہے، اور اسے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔

احادیث نبویہ میں جھوٹ کی مذمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو منافق کی علامت قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔"
(صحیح بخاری: 33، صحیح مسلم: 59)

یہ حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ جھوٹ بولنا منافقت کی علامت ہے۔ ایک سچا مسلمان کبھی بھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیتا۔

ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف۔"
(صحیح مسلم: 2607)

یہ حدیث نہایت گہری معنویت رکھتی ہے کہ جھوٹ صرف ایک وقتی فائدہ نہیں بلکہ مستقل نقصان کا سبب ہے۔

فقہی نقطہ نظر سے جھوٹ

فقہ اسلامی میں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ تمام مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ صرف چند مخصوص حالتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، جیسے:

  1. صلح کے لیے (دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے)
  2. جنگ کے دوران (دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے)
  3. شوہر بیوی کے درمیان محبت قائم رکھنے کے لیے

لیکن ان صورتوں میں بھی جھوٹ کو محدود اور محتاط انداز میں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، نہ کہ کھلا لائسنس۔

جھوٹ کے دنیوی و اخروی نقصانات

1. اعتماد کا خاتمہ: جھوٹ انسان کے کردار کو مشکوک بناتا ہے، لوگ اس پر اعتبار نہیں کرتے۔

2. تعلقات میں خرابی: جھوٹ کی بنیاد پر بنے رشتے دیرپا نہیں ہوتے، بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

3. سماجی فساد: جھوٹ سے معاشرے میں بدگمانی، نفرت، اور فتنہ پیدا ہوتا ہے۔

4. آخرت کا عذاب: جھوٹ بولنے والے کو آخرت میں سخت عذاب کی وعید دی گئی ہے۔

5. روحانی زوال: جھوٹ بولنے والا شخص دل کی سختی، ایمان کی کمزوری، اور روحانی بےحسی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

نتیجہ

اسلام میں جھوٹ کو انتہائی مذموم فعل قرار دیا گیا ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہی تعلیمات سب اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹ انسان کی تباہی کا سبب ہے، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی۔ ایک سچے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر حال میں سچ بولے، خواہ اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سچوں کے ساتھ ہے۔

"يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين"
(سورۃ التوبہ: 119)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

Sunday, May 18, 2025

Durood Shareef ke fawaid درود شریف کے فوائد

 

درود شریف پڑھنے کے بے شمار روحانی، دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں۔ درج ذیل چند اہم فوائد بیان کیے جا رہے ہیں:

1. اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول

جو شخص درود شریف پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا زیادہ رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

حدیث:
"جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ اس پر دس بار رحمت نازل فرماتا ہے۔"
(مسلم شریف)


2. گناہوں کی معافی

درود شریف پڑھنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے اور دل کی صفائی حاصل ہوتی ہے۔


3. دعاؤں کی قبولیت

درود شریف دعاؤں کی قبولیت کی کنجی ہے۔ اگر دعا سے پہلے اور بعد میں درود پڑھا جائے تو دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔


4. محبتِ رسول ﷺ میں اضافہ

درود شریف پڑھنے سے حضور اکرم ﷺ سے محبت بڑھتی ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔


5. قیامت کے دن شفاعت

جو دنیا میں کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے، حضور ﷺ قیامت کے دن اس کی شفاعت کریں گے۔


6. فرشتوں کی دعائیں

درود شریف پڑھنے والے کے لیے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔


7. دل کو سکون اور روحانیت

درود شریف دل کو سکون دیتا ہے، غم و پریشانی دور ہوتی ہے اور روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔۔

بزرگوں کی مدد کرنا

  عنوان: بزرگوں کی مدد کرنا ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک خوبصورت گاؤں "نورپور" میں ایک چھوٹا سا بچہ رہتا تھا جس کا نام علی تھا۔ علی بہ...