Followers

Tuesday, May 20, 2025

بزرگوں کی مدد کرنا

 عنوان: بزرگوں کی مدد کرنا

ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک خوبصورت گاؤں "نورپور" میں ایک چھوٹا سا بچہ رہتا تھا جس کا نام علی تھا۔ علی بہت ذہین، نیک دل اور خوش اخلاق بچہ تھا۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور سب کا بہت ادب کرتا تھا، خاص طور پر اپنے والدین اور بزرگوں کا۔

ایک دن علی اسکول سے واپس آرہا تھا کہ راستے میں اس نے ایک بوڑھے بابا جی کو دیکھا، جو بھاری تھیلا اٹھائے بہت مشکل سے چل رہے تھے۔ علی فوراً ان کے پاس گیا اور ادب سے بولا، "بابا جی! یہ تھیلا میں اُٹھا لیتا ہوں، آپ کو تکلیف ہوگی۔"

بابا جی نے مسکرا کر کہا، "بیٹا، تم بہت اچھے ہو، اللہ تمہیں خوش رکھے۔"

علی نے ان کا تھیلا اٹھایا اور پوچھا، "بابا جی، آپ کہاں جا رہے ہیں؟"

بابا جی نے جواب دیا، "بیٹا، میں اپنے گھر جا رہا ہوں جو بازار کے پاس ہے، لیکن عمر کی وجہ سے زیادہ دیر تک چلنا مشکل ہو گیا ہے۔"

علی نے ان سے کہا، "آئیے، میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔"

راستے میں بابا جی نے علی کو بہت سی باتیں بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کبھی اسکول کے استاد تھے اور بہت سے بچوں کو پڑھاتے تھے، لیکن اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ علی نے دلچسپی سے ساری باتیں سنیں اور دل ہی دل میں سوچا کہ بزرگ لوگ کتنے علم والے اور تجربہ کار ہوتے ہیں، ہمیں ان کی عزت کرنی چاہیے۔

جب وہ گھر پہنچے تو بابا جی نے علی کو دعائیں دیں اور کہا، "بیٹا، تم نے آج جو کام کیا ہے، وہ بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اللہ تمہیں دنیا و آخرت میں کامیاب کرے۔"

علی مسکرا کر واپس آیا اور دل ہی دل میں خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس نے کسی کی مدد کی۔

اگلے دن علی نے اپنی جماعت میں سب بچوں کو یہ واقعہ سنایا۔ اس کے استاد جناب فیاض صاحب نے کہا، "علی نے جو کام کیا وہ ہم سب کے لیے ایک سبق ہے


۔ ہمیں ہمیشہ بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے، ان کی مدد کرنی چاہیے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔"



استاد صاحب نے بچوں کو ایک مثال دیتے ہوئے کہا، "بزرگ ایسے ہوتے ہیں جیسے درخت کے سائے، جو ہمیں گرمی میں ٹھنڈک دیتے ہیں۔ ان کے تجربات اور دعائیں ہماری زندگی میں برکت کا ذریعہ بنتی ہیں۔"

علی کے دوست احمد نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا، "سر! آج کے بعد میں بھی جب کسی بزرگ کو دیکھوں گا تو ان کی مدد ضرور کروں گا۔"

تمام بچوں نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہر بزرگ کی عزت کریں گے اور جب بھی کسی کو ضرورت ہو، اس کی مدد کریں گے۔

اس دن کے بعد نورپور کے سب بچے علی کی مثال پر چلنے لگے۔ جب بھی کوئی بزرگ بازار جاتا، گلی سے گزرتا یا کسی کام میں مشکل محسوس کرتا، کوئی نہ کوئی بچہ فوراً آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا۔ گاؤں کے بزرگ بہت خوش تھے اور دعائیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔

یوں علی کے ایک نیک کام نے پورے گاؤں کے بچوں کو سبق سکھایا اور نورپور کا گاؤں ایک مثالی گاؤں بن گیا جہاں بچے نہ صرف ادب کرتے تھے بلکہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔

سبق:
بزرگوں کی مدد کرنا صرف نیکی نہیں بلکہ ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ بھی ہے۔ ان کی دعائیں ہمارے لیے خوشیوں اور کامیابیوں کا دروازہ کھولتی ہیں۔

اگر آپ چاہیں تو میں اس کہانی کو خوبصورت تصویروں کے ساتھ ایک پی ڈی ایف میں بھی بنا سکتا ہوں۔

Monday, May 19, 2025

والد کا اپنے بچوں کو درود ابراہیمی سکھانا اور اس کے فضائل بیان کرنا

 درودابراہیمی 

ایک شام، گھر کی روشنیوں کے درمیان والد اپنےدو بچوں، احمد اور فاطمہ کے ساتھ قالین پر بیٹھے تھے۔ نمازِ مغرب کے بعد انہوں نے بچوں کو پاس بٹھایا اور مسکرا کر کہا: "آج تمہیں ایک خاص دعا سکھاؤں گا جو ہماری نمازوں کا حصہ بھی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی محبت کا ذریعہ بھی—**درود ابراہیمی**۔" بچوں کی آنکھوں میں تجسس چمک اٹھا۔  


والد نے نرمی سے سمجھایا: "یہ درود ہم نماز میں التحیات پڑھتے وقت بھیجتے ہیں۔ اس کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں سے ہے، جو ہمارے نبی ﷺ کے لیے خاص ہیں۔" انہوں نے درود کا عربی متن بتایا:  


**"اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ"**  


بچوں نے دہرایا، پھر والد نے اردو ترجمہ سمجھا: "اے اللہ! محمد ﷺ اور ان کے اہلِ بیت پر رحمتیں نازل فرما، جیسا تو نے ابراہیم اور ان کے اہلِ بیت پر نازل کیں۔ بے شک تو قابلِ تعریف اور بزرگی والا ہے۔"  


فاطمہ نے پوچھا: "ابا، یہ درود پڑھنے سے کیا فائدہ ہے؟" والد نے گود سے قرآن اٹھاتے ہوئے جواب دیا: "پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: *'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے'* (صحیح مسلم)۔ اس کے علاوہ، درود ہمارے گناہ مٹاتا ہے، درجات بلند کرتا ہے، اور قیامت کے دن نبی ﷺ کی شفاعت کا ذریعہ بنے گا۔"  


احمد نے سر ہلاتے ہوئے کہا: "لیکن ہم تو نماز میں یہ پہلے ہی پڑھتے ہیں!" والد مسکرائے: "بالکل! مگر ہم دن بھر بھی درود بھیج سکتے ہیں۔ جب بھی ہم انہیں یاد کرتے ہیں، یہ ہمارے دل کو صاف کرتا ہے اور ہمارے اعمال کو روشن کرتا ہے۔"  


انہوں نے مزید بتایا: "درود ابراہیمی اللہ کو سب سے پیاری دعا ہے۔ یہ ہمیں نبی ﷺ سے قریب کرتا ہے اور ان کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ بن جاتی ہے۔" بچوں نے عہد کیا کہ وہ روزانہ درود پڑھیں گے۔  


آخر میں، سب نے مل کر درود پڑھا۔ والد کی آواز میں سکون تھا، اور بچوں کے چہرے روحانی مسرت سے دمک اٹھے۔ یہ سبق نہ صرف ایک دعا سیکھنے تک محدود تھا، بلکہ نبی ﷺ سے قلبی تعلق کی شروعات تھی۔


اسلام کے رو سے جھوٹ کے نقصانات

 اسلام کی رو سے جھوٹ کے نقصانات

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انس


ان کو سچائی، دیانت داری، اور راست بازی کا درس دیتا ہے۔ دین اسلام میں جھوٹ کو سختی سے منع کیا گیا ہے اور اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید، احادیث نبویہ اور فقہی اصولوں میں جھوٹ کے دنیوی و اخروی نقصانات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جھوٹ نہ صرف فرد کی شخصیت کو داغدار کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو فساد، بداعتمادی اور زوال کی طرف لے جاتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں جھوٹ کی مذمت

قرآن مجید میں جھوٹ کو مختلف انداز میں برا کہا گیا ہے۔ جھوٹ بولنے والوں کو "ظالم" اور "فاسق" کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
"إن الله لا يهدي من هو مسرف كذاب"
(سورۃ غافر: 28)
ترجمہ: "بیشک اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور بڑا جھوٹا ہو۔"

یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ جھوٹ بولنا انسان کو اللہ کی ہدایت سے محروم کر دیتا ہے، اور اسے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔

احادیث نبویہ میں جھوٹ کی مذمت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو منافق کی علامت قرار دیا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔"
(صحیح بخاری: 33، صحیح مسلم: 59)

یہ حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ جھوٹ بولنا منافقت کی علامت ہے۔ ایک سچا مسلمان کبھی بھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیتا۔

ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف۔"
(صحیح مسلم: 2607)

یہ حدیث نہایت گہری معنویت رکھتی ہے کہ جھوٹ صرف ایک وقتی فائدہ نہیں بلکہ مستقل نقصان کا سبب ہے۔

فقہی نقطہ نظر سے جھوٹ

فقہ اسلامی میں جھوٹ بولنا حرام ہے۔ تمام مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ صرف چند مخصوص حالتوں میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، جیسے:

  1. صلح کے لیے (دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے)
  2. جنگ کے دوران (دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے)
  3. شوہر بیوی کے درمیان محبت قائم رکھنے کے لیے

لیکن ان صورتوں میں بھی جھوٹ کو محدود اور محتاط انداز میں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، نہ کہ کھلا لائسنس۔

جھوٹ کے دنیوی و اخروی نقصانات

1. اعتماد کا خاتمہ: جھوٹ انسان کے کردار کو مشکوک بناتا ہے، لوگ اس پر اعتبار نہیں کرتے۔

2. تعلقات میں خرابی: جھوٹ کی بنیاد پر بنے رشتے دیرپا نہیں ہوتے، بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

3. سماجی فساد: جھوٹ سے معاشرے میں بدگمانی، نفرت، اور فتنہ پیدا ہوتا ہے۔

4. آخرت کا عذاب: جھوٹ بولنے والے کو آخرت میں سخت عذاب کی وعید دی گئی ہے۔

5. روحانی زوال: جھوٹ بولنے والا شخص دل کی سختی، ایمان کی کمزوری، اور روحانی بےحسی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

نتیجہ

اسلام میں جھوٹ کو انتہائی مذموم فعل قرار دیا گیا ہے۔ قرآن، حدیث اور فقہی تعلیمات سب اس بات پر متفق ہیں کہ جھوٹ انسان کی تباہی کا سبب ہے، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی۔ ایک سچے مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر حال میں سچ بولے، خواہ اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سچوں کے ساتھ ہے۔

"يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين"
(سورۃ التوبہ: 119)
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

Sunday, May 18, 2025

Durood Shareef ke fawaid درود شریف کے فوائد

 

درود شریف پڑھنے کے بے شمار روحانی، دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں۔ درج ذیل چند اہم فوائد بیان کیے جا رہے ہیں:

1. اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول

جو شخص درود شریف پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا زیادہ رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

حدیث:
"جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ اس پر دس بار رحمت نازل فرماتا ہے۔"
(مسلم شریف)


2. گناہوں کی معافی

درود شریف پڑھنے سے گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے اور دل کی صفائی حاصل ہوتی ہے۔


3. دعاؤں کی قبولیت

درود شریف دعاؤں کی قبولیت کی کنجی ہے۔ اگر دعا سے پہلے اور بعد میں درود پڑھا جائے تو دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔


4. محبتِ رسول ﷺ میں اضافہ

درود شریف پڑھنے سے حضور اکرم ﷺ سے محبت بڑھتی ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔


5. قیامت کے دن شفاعت

جو دنیا میں کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے، حضور ﷺ قیامت کے دن اس کی شفاعت کریں گے۔


6. فرشتوں کی دعائیں

درود شریف پڑھنے والے کے لیے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور اس کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔


7. دل کو سکون اور روحانیت

درود شریف دل کو سکون دیتا ہے، غم و پریشانی دور ہوتی ہے اور روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔۔

Saturday, November 26, 2022

درود شریف Durood Shareef


 شیعہ حضرات پیغمبر اکرم (ص) پر درود پڑھتے وقت ان کی آل  کو بھی کیوں درود میں شامل کرتے ہیں ؟


 کیا *اھل سنت سے* اس سلسلے میں کوئی سند موجود ہے؟


 *اس سوال کا جواب*

 حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے بیان کیا ہے ہم ان کے بیانات کو یہاں پر پیش کرتے ہیں۔


محمد و آل محمد پر درود پڑھنے کے سلسلے میں علمای اھل سنت کی روایات:


جن کتابوں میں مطلق طور پر یا تشھد میں محمد و آل پر درود پڑھنا نقل ہوا ہے، ان میں صحابہ کی ایک تعداد ، جیسے ابن عباس، طلحہ ، ابو سعید خدری ، ابو ھریرہ ، ابو مسعود انصاری، بریدہ ابن مسعود ، کعب بن عجرہ اور خود علی علیہ السلام سے نقل کی گئ ہیں۔


 سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۶ میں ارشاد ہے: ﴿ إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلاَئِكَـتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَسَلِّمُواْ تَسْلِيماً ﴾بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلٰوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبانِ ایمان تم بھی ان پر صلٰوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔


اس آیہ شریفہ میں پیغمبر اسلام (ص) کی عظمت کو سب سے عالی طریقے پر بیان کیا گیا ہے ، کیونکہ خود خداوند متعال اور سب مقرب فرشتے  آنحضرت (ص) پر درود اور سلام بھیجتے ہیں۔  اس سے اورکیا بلند مقام ؟ اور اس سے زیادہ اور کونسی عظمت ؟


اب ہم ان روایات کو یہاں پر پیش کرتے ہیں  جو اھل سنت و الجماعت کی معروف حدیثی کتابوں میں زکر ہوئیں ہیں


صحیح بخاری اور حدیث "آل محمد"


" صحیح بخاری" میں ابو سعید  خدری سے نقل ہوا ہے کہ : ہم نے عرض کیا اے رسول خدا (ص) آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہے  لیکن آپ پر درود اور صلوات کیسے بھیجیں گے  تو آنحضرت (ص) نے فرمایا : "قُولُوا الّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد عَبْدِکَ وَ رَسُولِکَ کَما صَلَّیْتَ على اِبْراهیمَ و آلِ اِبْراهیمَ وَ بارِکْ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کما بارَکْتَ على اِبْراهیمَ""[1] کہہ دو پروردگارا درود بھیج محمد (ص) اپنے بندے اور رسول پر جیسا کہ ابراھیم اور آل ابراھیم پر درود بھیجا ہے، اپنی برکت بھیج محمد (ص) اور آل محمد (ص) پر جیسا کہ اپنی برکت بھیجی ہے ابراھیم پر۔


اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ حدیث مکمل طور پر ایک معروف صحابی " کعب بن عجزہ" سے نقل ہوئی ہے کہ: کہ آنحضرت (ص) کی خدمت میں عرض کیا : ہمیں آپ کے اوپر سلام بھیجنے کا طریقہ معلوم ہوا لیکن آپ پر درود اور صلوات کیسے ہونی چاھیئے آنحضرت (ص) نے فرمایا: اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ، اَلّلهُمَّ بارِکْ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"[2]


یہ بات قابل توجہ ہے کہ بخاری نے ان احادیث کو آیہ شریفہ : إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلاَئِكَـتَهُ ....  کی ذیل میں نقل کئے ہیں۔


مسلم نے اپنی صحیح میں حدیث " آل محمد " نقل کیا ہے۔


 " صحیح مسلم " جو کہ اھل سنت کا دوسرا مشہور حدیثی مجموعہ ہے " ابی مسعود انصاری" نے منقول ہے کہ : آنحضرت (ص) ہمارے پاس تشریف لائے اورہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں تھے ، سعد کے فرزند بشیر نے عرض کیا: اے رسول خدا (ص) خدا نے ہمیں آپ پر درود اور صلوات بھیجنے کا حکم دیا  ہے ۔ ہم کیسے آپ پر درود بھیجیں گے؟ آنحضرت (ص) پہلے چپ رہے پھر فرمایا: کہہ دو : " اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ ، بارِکْ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کما بارَکْتَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ فى الْعالَمینَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"[3]


سیوطی نے " آل محمد " کی روایت کو اپنی کتاب الدر المنثور میں ذکر کیا ہے۔


 تفسیر الدر المنثور  جو حدیث کی معروف تفسیر یے اسی روایت کو ابو سعید خدری سے  بخاری اور نسائی اور ابن ماجہ اور ابن مردویہ کی سند سے آنحضرت (ص) سے  نقل کرتے ہیں۔ [4] اور اسی کتاب میں  ابو مسعود کی عبارت کو ترمذی اور نسائی اور ابن مردویہ سے نقل کیا ہے۔ [5]  اور اسی مضمون کو مختصر فرق کے ساتھ  مالک ، احمد ، بخاری ، مسلم ابو داود ، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن مردویہ ابو احمد ساعدی سے بھی نقل کیا ہے۔ [6]


حاکم نیشابوری نے کتاب المستدرک میں حدیث" آل محمد" کو نقل کیا ہے۔


 حاکم نیشابوری نے " المستدرک علی الصحیحین" ابن ابی لیلی سے نقل کیا ہے کہ : کعب بن عجزہ نے میرے ساتھ ملاقات کی اور کہا: کیا تم چاھتے ہو کہ میں تمہیں ہدیہ دوں جو میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا ہے۔ عرض کیا : ہاں ۔ ہدیہ کرو ، اس نے کہا: ہم نے آنحضرت (ص) سے پوچھا آپ کی  اھل البیت پر کس طرح صلوات بھیجیں گے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا: کہہ دو: : " اَلّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدُ مَجیدُ، اَلّلهُمَ باِرکَ عَلى مُحَمَّد وَ عَلى آلِ مَحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدُ مَجید".


پھر حاکم نیشابوری کہ جس کا مقصد ان احادیث کو ذکر کرنا ہے جو " صحیح بخاری" اور " صحیح مسلم" میں موجود نہیں ہیں فرماتے ہیں: اس حدیث کو انھیں الفاظ اور اسی  سند سے بخاری نے موسی بن اسماعیل کی سندکے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور اگر میں نے اس کو یہاں نقل کیا ہے وہ اس لئے ہے کہ معلوم ہوجائے کہ  اھل بیت (ع) و آل ، سب ایک ہی ہیں۔ ( البتہ قابل توجہ یہ ہے کہ حاکم نے اس حدیث کو حدیث کساء  جس میں آنحضرت (ص) نے  واضح کیا ہے کہ میرے اھل بیت (ع) علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین ہیں ، کے بعد نقل کیا ہے[7] ۔ اور یہ ایک پر معنی تعبیر ہے )۔


اس کے بعد حاکم ، حدیث ثقلین اور اس کے بعد ابو ھریرہ کی حدیث کو نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے ایک نظر علی (ع) اور حسن اور حسین کی جانب کی ۔ پھر فرمایا: " انا حرب لمن حاربکم و سلم لمن سالمکم [8] میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا جو آپ کے خلاف جنگ کرے گا اور صلح کروں گا جو آپ کے ساتھ صلح کرے۔


طبری اور روایت " آل محمد" کی نقل چار سندوں کے ساتھ


محمد بن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ذیل میں مندرجہ بالا روایت کو تھوڑے فرق کے ساتھ موسی بن طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے نقل کی ہے  اور ایک اور روایت میں اسی کو ابن عباس سے روایت کیا ہے اور تیسری روایت میں زیاد بن ابراھیم اور چوتھی روایت  کو عبد الرحمان بن بشر بن مسعود  انصاری سے نقل کیا ہے[9]


بیھقی نے بھی اپنی معروف کتاب " سنن" میں متعدد روایات کو اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ جن میں بعض روایات نماز میں اور تشھد کے موقع پر مسلمانوں کے  ذمہ داریوں کو روشن کرتے ہیں۔ ان احادیث میں ایک حدیث ابی مسعود عقبہ بن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ : ایک صحابی آنحضرت (ص) کی خدمت میں آکر بیٹھ گیا ، ہم بھی آنحضرت (ص) کے بیٹھے تھے ان نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ پر سلام بھیجنے کے طریقے کو جانتے ہیں ۔ لیکن نماز پڑھتے وقت کس طرح آپ پر درود بھیجیں گے؟ آنحضرت (ص) تھوڑا چپ ہوئے ، یہاں تک کہ ہم نے سوچا کہ اے کاش یہ آدمی اس طرح کا سوال نہ کرتا ۔ پھر پیغمبر (ص) نے فرمایا "اِذا اَنْتُمْ صَلَّیْتُمْ عَلَىَّ فَقُولُوا الّلهُمَّ صَلَّ عَلى مُحَمَّد النَّبِىِّ الاٌمِىِّ وَ عَلى آلِ مُحَمَّد، کَما صَلَّیْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ وَ بارِکْ عَلَى مُحَمَّد النَّبىِّ الاٌمِىِّ وَ عَلى آلِ مُحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى اِبْراهیمَ وَ عَلى آلِ اِبْراهیمَ، اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"


 پھر ابو عبد اللہ شافعی نقل کرتے ہیں کہ : " یہ حدیث صحیح ہے کہ جس میں نماز کے دوران آنحضرت پر درود بھیجنے کے سلسلے میں بات کی گئی ہے۔ [10]


بیھقی نے اور بھی متعدد احادیث کو پیغمبر اکرم (ص) پر درود بھیجنے کے سلسلے میں بیان کی ہیں چاھے وہ مطلق طور پر بیان کی گئی ہیں یا نماز میں آنحضرت (ص) پر درود بھیجنے کے سلسلے میں نقل ہوئیں ہیں۔ خصوصا ایک حدیث کعب بن عجرہ سے منقول ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: : " اِنَّه کانَ یَقُولُ فى الصَّلوهِ: الّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ عَلى اِبْراهیمَ و آلِ اِبْراهیمَ وَ بارِکْ عَلى مُحَّمَد وَ آلِ مُحَمَّد کَما بارَکْتَ عَلى اِبْراهیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَجیدٌ"؛آنحضرت (ص) نے اپنی نماز میں یوں فرمایا: " الّلهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد کَما صَلَّیْتَ ... "  [11]


اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ خود پیغمبر اکرم (ص) بھی اپنی نماز میں اسی طرح درود و صلوات بھیجتے تھے۔


بیھقی ، ایک اور روایت کی ذیل میں جس میں نماز کے بارے گفتگو نہیں ہوئی ہے کہتے ہیں : یہ روایتیں بھی حالت نماز کے سلسلے بیان ہوئیں ہیں۔ کیونکہ جملہ " قد علمنا کیف نسلم " ( ہم جانتے کہ کس طرح سلام بھیجیں ) تشھد کی سلام کی جانب اشارہ ہے۔ " السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ " پس "صلوات" سے مراد ، تشھد میں صلوات مراد ہے۔ [12]


اس طرح مسلمانوں کو حکم ہوا ہے کہ جیسا کہ تمام اسلامی مذاھب کا عقیدہ ہے کہ تشھد میں رسول اکرم (ص) پر صلوات " السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ" کہیں۔ اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) پر درود اور صلوات بھی بھیجیں۔


اگرچہ یہاں پر اھل سنت کے چار مذاھب کے درمیان تھوڑا اختلاف ہے ، شافعی اور حنبلی کہتے ہیں کہ : پیغمبر پر صلوات دوسرے تشھد میں واجب ہے۔ جبکہ مالکی اور حنفی حضرات اسے کو سنت جانتے ہیں۔ [13] در آنحالیکہ اس روایت کے مطابق سب پر واجب ہے۔


بھر حال جن کتابوں میں محمد و آل محمد (ص) پر صلوات اور درود ( مطلق طور پر یا خصوصا نماز کے  تشھد میں) نقل ہوا ہے ان کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے جو اس مختصر میں بیان ہوجائے۔ جو کچھ اوپر ذکر ہوا وہ ان احادیث اور کتابوں میں سے صرف کچھ نمونے ہیں۔ ان احادیث کو بعض صحابہ  جیسے ابن عباس ، طلحہ ، ابو سعید خدری ، ابو ھریرہ ، ابو مسعود انصاری ، بریدہ ، ابن مسعود ، کعب بن عجرہ اور خود حضرت علی (ع) نے نقل کیا ہے۔


 ہم اس گفتگو کو دو حدیثوں کے ساتھ مکمل کرتے ہیں:


 ابن حجر نے " الصواعق " میں یون نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: لا تصلوا علی الصلاۃ البتراء ، قالوا و ما الصلاۃ البتراء ، قال : تقولون : اللھم صل محمد  و تمسکون ، بل قولوا "اللھم صل علی محمد و آل محمد"  ہر گز میرے اوپر ناقص درود مت بھیجو ، عرض کیا گیا ، ناقص درود کیا ہے، فرمایا : اللھم صل علی محمد کہہ کر رک جاو اور آگے نہ کہو بلکہ کہو: "اللھم صل علی محمد و آل محمد"[14] ۔


سمھودی نے کتاب " الاشراف علی فضل الاشراف" میں ابن مسعود انصاری سے نقل کیا ہے کہ : رسول خدا (ص) نے فرمایا: " من صلی صلاۃ لم یصل فیھا علی و علی اھل بیتی لم تقبل " [15]


جو بھی نما پڑھے جہ جس میں میرے اوپر اور میرے اھل بیت پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہے ، شاید امام شافعی کا مشہور شعر بھی اسی روایت کے تناظر میں بیان ہواہے۔


 یا اھل بیت رسول اللہ حبکم                 فرض من اللہ فی القرآن انزلہ ۔


کفاکم من عظیم القدر انکم                     من لم یصل علیکم لا صلاۃ لہ


 اے رسول اکرم (ص) کے اھل بیت آپ کی محبت خداوند متعال کی طرف سے قرآن میں واجب قرار دی گئی ہے ، آپ کے مقام کی عظمت میں اتنا ہی کافی ہے کہ جو بھی آپ پر درود نہ بھیجے اس کی نماز باطل ہے۔ [16]




[1]  صحیح بخاری ، البخاری الجعفی، محمد بن اسماعیل ابو عبد اللہ تحقیق، مصطفی دیب البغاء، دار ابن کثیر ، الیمامۃ ، بیروت ، ۱۴۰۷ ھ ق ، ۱۹۸۷ ، طبع سوم ، ج ۴ ص ۱۸۰۲ ، ح ۴۵۱۹۔

[2] ایضا

[3] الجمامع الصحیح المسمی صحیح مسلم ، مسلم بن الحجاج ابو الحسین القشیری النیشابوری، تحقیق : محمد فؤاد عبد الباقی ، دار احیاء التراث العربی، بیروت ، بی تا ، ج ۱ ص ۳۰۵ ، ح ۶۵۔

[4] الدر المنثور فی تفسیر الماثور ، سیوطی ، جلال الدین ، کتابخانی آیۃ اللہ مرعشی نجفی ، قم ۱۴۰۴ ، ق ، ج ۵ ص ۲۱۷ ، ( قولہ تعالی ان اللہ و ملاءکتہ الآیۃ )

[5]  ایضا ۔

[6]  ایضا

[7]  المستدرک علی الصحیھین ، محمد بن عبد اللہ ابو عبد اللہ الحاکم النیشابوری ، تحقیقن، مصطفی ، عبد القادر عطا ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت ، ۱۴۱۱، ق ۱۹۹۰ ، طبع اول ج ۳ ص ۱۵۹، ۱۶۰، ۔

[8]  ایضا ص ۱۶۱

[9] جامع البیان فی تفسیر طبری ابو جعفر محمد بن جریر ، دار المعرفہ ، بیروت ۱۴۱۲ ق ، طبع اول ، ج ۲۲ ص ۳۲ سورہ احزاب آیہ ۵۶

[10] السنن الکبری و فی ذیلہ الجوھر النقی، ابو بکر احمد بن الحسین بن علی البیھقی ، مجلس دائرہ المعارف النظامیۃ الکائنۃ ، حیدر آباد، ھند ، ۱۳۴۴، طبع اول ج ۲ ص ۱۴۶ ۔

[11] ایضا ص ۱۴۷۔

[12] ایضا

[13] الفقہ علی مذھب الاربعۃ ، و مذھب اھل البیت وفقا لمذاھب اھل البیت ( علیھم السلام ) ، جزیری، عبد الرحمن ، غروی ، سید محمد ، یاسر مازح ، دار الثقلین ، بیروت ، لبنان ، ۱۴۱۹ ھ ق ، طبع اول ج ۱ ص ۳۱۸ ، ( نیۃ الامام و نیۃ الماموم)


 

[14] الصواعق المحرقہ علی  اھل الرفض و الضلال و الزندقہ ، ابی العباس احمد بن محمد بن محمد بن علی ابن حجر الھیثمی، تحقیق ، عبد الرحمن بن عبد اللہ الترکی ، و کامل محمد الخراط ، موسسہ الرسالۃ ، بیروت ، ۱۹۹۷ طبع اول ج ۲ ص ۴۳۰

[15] جواھر العقدین فی فضل الشرفین ، علی بن عب اللہ الحسن سمھودی ، مطبعۃ العانی م بگداد ، ۱۴۰۵ ، ق طبع اول  ج ۲ ، ص ۶۳۔ ( الثانی ذکر امرہ  (ص)  بالصلاۃ علیھم فی امتثال ما شرعہ اللہ مں الصلاۃ علیھم  و وجہ الدلالۃ علی ایجاب ذالک فی الصلوات ، احقاق الحق و ازھاق الباطل ، قاضی نور اللہ شوشتری  مکتبہ آیۃ اللہ مرعتی ، قم ۱۴۰۹، ق طبع اول ج ۱۸  ص ۳۱۰ ، ( التاسع حدیث ابن مسعود )


 

[16] الغدیر فی الکتاب و السنہ و الادب ، علامہ عبد الحسین امینی ، مرکز الغیر للدراسات الاسلامیۃ ، قم ۱۴۱۶، ھ ، طبع اول ج ۳ ص ۲۴۵، منھاج السنۃ ، دیوان الام الشافعی ، تدقیق و تحقیق صالح الشاعر ، مکتبۃ الآداب ، قاھرہ ، ۱۴۲۷ ھ ، طبع دوم ج ۱ س ۲۱۔

بزرگوں کی مدد کرنا

  عنوان: بزرگوں کی مدد کرنا ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک خوبصورت گاؤں "نورپور" میں ایک چھوٹا سا بچہ رہتا تھا جس کا نام علی تھا۔ علی بہ...