ایک گائے راستہ بھٹک کر جنگل کی طرف نکل گئی۔ وہاں ایک شیر اس پر حملہ کرنے کیلئے دوڑا۔ گائے بھاگنے لگی ۔ شیر بھی اُس کے پیچھے دوڑتا رہا۔ گائےنے بھاگتےبھاگتےبالآخر ایک دلدلی جھیل میں چھلانگ لگا دی۔ شیر نےبھی اس کے پیچھے چھلانگ لگادی لیکن گائے سے کچھ فاصلے پر ہی دلدل میں پھنس گیا۔ اب وہ دونوں جتنا نکلنے کی کوشش کرتے دلدل میں اُتنا ہی پھنستے جاتے۔
بالآخر شیر غصے سے بھُنَّاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ بدتمیز گائے! تجھے چھلانگ لگانے کیلئے اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی۔ کوئی اور جگہ ہوتی تو میں تجھے چیر پھاڑ کر کھاتا اور صرف تیری جان جاتی، میں تو بچ جاتا لیکن اب تو ہم دونوں ہی مریں گے‘ گائے ہنس کر گویا ہوئی:’’جناب شیر! کیا آپ کا کوئی مالک ہے شیر مزید غصے سے تلملاتا ہوا ڈھاڑا: ’’ تیری عقل پر پتھر! میرا کہاں سے مالک آیا؟ میں تو خود ہی اس جنگل کا بادشاہ ہوں، اس جنگل کا مالک ہوں گائے کو پھر ہنسی آگئی، کہنے لگی: ’’بادشاہ سلامت ! یہیں پر آپ کمزور ہیں، نہایت ہی کمزور۔ میرا ایک مالک ہے، جو کچھ ہی دیر میں مجھے ڈھونڈھتا ہوا یہاں آجائے گا اور مجھے نکال کر لے جائے گا اور آپ کو مار ڈالے گا پھر گائے زور زور سے آوازیں نکال کر اپنے مالک کو اپنی طرف اپنی نجات کیلئے پکارنے لگی۔ ٹھیک شام کے قریب چرواہا اپنی گائے کو ڈھونڈھتا ہوا آیا ، شیر کو مار ڈلا اور گائے کو نکال کر لے گیا۔آج ہم مسلمان بھی اُس گائے کی طرح بھٹک گئے ہیں اور شیر نما دشمن ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارا بھی ایک مالک ہے جو زبردست اور حکمت والا ہے جو ہمیں دشمن کی سازش اور ظلم و بربریت سے نجات دلانے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنے زبردست قدرت والے مالک کو پکارنے کے بجائے اپنے دشمن کو ہی اپنا خیرخواہ اور مددگار سمجھ رہے ہیں اور ان کے ہی اشاروں پر چل رہے ہیں، نتیجتاً ناکام و نامراد ہو رہے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ (149) آل عمران
’’اے ایمان والو اگر تم کافروں کے اشاروں پر چلو گے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھاتے ہوئے (ناکام و نامراد) پلٹو گے‘‘ (149) آل عمران
جبکہ ہمارا خیرخواہ اور سب سے بہتر مددگار صرف اور صرف اللّٰہ تعالٰی ہی ہے

No comments:
Post a Comment