عنوان: بزرگوں کی مدد کرنا
ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک خوبصورت گاؤں "نورپور" میں ایک چھوٹا سا بچہ رہتا تھا جس کا نام علی تھا۔ علی بہت ذہین، نیک دل اور خوش اخلاق بچہ تھا۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا اور سب کا بہت ادب کرتا تھا، خاص طور پر اپنے والدین اور بزرگوں کا۔
ایک دن علی اسکول سے واپس آرہا تھا کہ راستے میں اس نے ایک بوڑھے بابا جی کو دیکھا، جو بھاری تھیلا اٹھائے بہت مشکل سے چل رہے تھے۔ علی فوراً ان کے پاس گیا اور ادب سے بولا، "بابا جی! یہ تھیلا میں اُٹھا لیتا ہوں، آپ کو تکلیف ہوگی۔"
بابا جی نے مسکرا کر کہا، "بیٹا، تم بہت اچھے ہو، اللہ تمہیں خوش رکھے۔"
علی نے ان کا تھیلا اٹھایا اور پوچھا، "بابا جی، آپ کہاں جا رہے ہیں؟"
بابا جی نے جواب دیا، "بیٹا، میں اپنے گھر جا رہا ہوں جو بازار کے پاس ہے، لیکن عمر کی وجہ سے زیادہ دیر تک چلنا مشکل ہو گیا ہے۔"
علی نے ان سے کہا، "آئیے، میں آپ کو گھر تک چھوڑ دیتا ہوں۔"
راستے میں بابا جی نے علی کو بہت سی باتیں بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کبھی اسکول کے استاد تھے اور بہت سے بچوں کو پڑھاتے تھے، لیکن اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ علی نے دلچسپی سے ساری باتیں سنیں اور دل ہی دل میں سوچا کہ بزرگ لوگ کتنے علم والے اور تجربہ کار ہوتے ہیں، ہمیں ان کی عزت کرنی چاہیے۔
جب وہ گھر پہنچے تو بابا جی نے علی کو دعائیں دیں اور کہا، "بیٹا، تم نے آج جو کام کیا ہے، وہ بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اللہ تمہیں دنیا و آخرت میں کامیاب کرے۔"
علی مسکرا کر واپس آیا اور دل ہی دل میں خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس نے کسی کی مدد کی۔
اگلے دن علی نے اپنی جماعت میں سب بچوں کو یہ واقعہ سنایا۔ اس کے استاد جناب فیاض صاحب نے کہا، "علی نے جو کام کیا وہ ہم سب کے لیے ایک سبق ہے
۔ ہمیں ہمیشہ بزرگوں کی عزت کرنی چاہیے، ان کی مدد کرنی چاہیے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔"
استاد صاحب نے بچوں کو ایک مثال دیتے ہوئے کہا، "بزرگ ایسے ہوتے ہیں جیسے درخت کے سائے، جو ہمیں گرمی میں ٹھنڈک دیتے ہیں۔ ان کے تجربات اور دعائیں ہماری زندگی میں برکت کا ذریعہ بنتی ہیں۔"
علی کے دوست احمد نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا، "سر! آج کے بعد میں بھی جب کسی بزرگ کو دیکھوں گا تو ان کی مدد ضرور کروں گا۔"
تمام بچوں نے مل کر عہد کیا کہ وہ ہر بزرگ کی عزت کریں گے اور جب بھی کسی کو ضرورت ہو، اس کی مدد کریں گے۔
اس دن کے بعد نورپور کے سب بچے علی کی مثال پر چلنے لگے۔ جب بھی کوئی بزرگ بازار جاتا، گلی سے گزرتا یا کسی کام میں مشکل محسوس کرتا، کوئی نہ کوئی بچہ فوراً آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا۔ گاؤں کے بزرگ بہت خوش تھے اور دعائیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔
یوں علی کے ایک نیک کام نے پورے گاؤں کے بچوں کو سبق سکھایا اور نورپور کا گاؤں ایک مثالی گاؤں بن گیا جہاں بچے نہ صرف ادب کرتے تھے بلکہ ہر وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔
سبق:
بزرگوں کی مدد کرنا صرف نیکی نہیں بلکہ ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ بھی ہے۔ ان کی دعائیں ہمارے لیے خوشیوں اور کامیابیوں کا دروازہ کھولتی ہیں۔
اگر آپ چاہیں تو میں اس کہانی کو خوبصورت تصویروں کے ساتھ ایک پی ڈی ایف میں بھی بنا سکتا ہوں۔





